85782D785359AA17AB647B72067E8792 Hind history part 5 - Wali Khan Kakar

Breaking News

Hind history part 5

⤴️2⃣
        تقریبا تین سال تک دین اسلام کی خاموشی سے تبلیغ ہوتی رہی۔ پھر پیغمبر کو ہدایت ہوئی کہ کھلے طور پر تبلیغ کریں۔ اس کی مخالفت یقینی تھی۔ ابو طالب نے محمد کے دین کو نہیں مانا مگر اپنے قبیلہ کی ان کو حمایت دی۔ چونکہ قریش میں کوئی باقاعدہ انتظامیہ نہ تھی اس لیے مسلمانوں کو پورے طور پر سزا دینے کی کوئی صورت نہ تھی سوائے اس کے کہ انھیں خرید لیں۔ لیکن آزاد مسلمان جنھیں اپنے قبیلہ کی حمایت حاصل تھی انھیں صرف برا بھلا کہا جاسکتا تھا اور پریشان کیا جاسکتا تھا۔ خصوصا جبکہ وہ کعبہ میں عبادت کرتے ہوں۔ پیغمبر نے اپنے کچھ مانے والوں کو ہدایت کی کہ وہ *حبشہ* ہجرت کر جائیں، غالبا دو ہجرتیں ہوئیں۔ *ہاشم* اور *ابو طالب* کے قبیلوں سے *دو سال* تک عدم تعاون کا تجربہ کیا گیا(لگ بھگ 618-616ء) لیکن اسے جلد ہی ختم کر دیا گیا۔ پیغمبر اور ان کے پیرو کسی مذہبی مسلک کو اختیار کرنے کے اس آزادانہ حق کا استعمال کر رہے تھے جو عرب کی روایت کے تحت تمام عربوں کو حاصل تھے۔ علاوہ ازیں دونوں فرقے خون اور ازدواج کے رشتے سے بہت ہی قریب تھے۔ اس لیے تقریبا دس سال آپس کے بحث و مباحثے میں گزر گئے جن کا کچھ ذکر قرآن کی اوائلی آیتوں میں موجود ہے۔ کناروں کی تعذیب کی وجہ سے کسی شخص کے مارے جانے کا کوئی واقعہ درج نہیں ہے۔

     لیکن 619ء میں پیغمبر کی بیوی خدیجہ اور ان کے چچا ابو طالب کا انتقال ہو گیا۔ اور بنی ہاشم کے نئے سردار *ابو جہل* نے اعلانیہ طور پر محمد سے قبیلہ کی حمایت واپس لے لی۔ اس طرح پیغمبر گویا قانون کی حمایت سے محروم ہو گئے ۔ اسلام کی خوش قسمتی سے *اوس* اور *خزرج* قبیلوں کی متحدہ جماعت نے انھیں مدعو کیا اور وہ622ء میں وہاں گئے۔

       اس دستاویز کے مطابق جس کو عام طور پر مدینہ کا دستور کہتے ہیں اور جس کی چند دفعات پیغمبر کے وہاں پہلے سال کے قیام کے دور کی ہیں ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے مدینہ کے قبائلی نظام کی ضمانت دی اور جو اختیارات انھوں نے اپنے ہاتھوں میں لیے وہ بہت محدود تھے۔ واٹ کہتا ہے ”قبیلہ کے سرداروں کے اختیارات بر قرار رہے اور پیغمبر کو، سوائے جنگ کے موقع پر ، کوئی انتظامی اختیارات نہ تھے۔ ان کا مخصوص اختیار عدلیہ کا اختیار تھا یعنی امن قائم رکھنا۔ ایام جاہلیہ کے اصولوں کے مطابق محمد کسی قبیلہ کے کیا کسی فرقہ کے بھی سردار نہیں ہو سکتے تھے پھر بھی مدینہ میں ایک مسلم مرکز قایم ہونے پر ایک نئی تنظیم یعنی ملت یا مسلمانوں کی مذہبی جماعت فروغ پائے لگی اور اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ محمد اس کے بانی اور سردار اعلا تھے۔ یہ حکم کہ *الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو* قرآن میں تقریبا *چالیس* بار آیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ پیغمبر کو بھی ہدایت کی گئی کہ مسلمانوں سے ان کے معاملات کے متعلق مشورہ کریں اور یہ اصول مسلمانوں کی عام ہدایت کے لیے نافذ کیا گیا کہ وہ اپنے معاملات کو صلاح و مشورہ سے طے کریں۔ مگر ملت نے قبیلہ کے انتظامی اختیارات کو فی الفور منسوخ نہیں کیا اس لیے کہ پیغمبر کے پاس اس کا کوئی بدل نہ تھا لیکن خلیفہ اول اور ان کے مشیروں نے مرتدوں (ردہ) کی جنگ کی وجہ سے گروہوں اور قبیلوں کے انتظامی اختیارات کو ختم کر دیا اور ایک باضابطہ ریاست کی تنظیم ہوئی۔ پھر بھی قبائلی نظام اور قبائلی اشتراک اور نفرت کی یاد بنی امیہ کے عہد تک جاری رہی۔ لیکن جہاں تک پیغمبر کا سوال ہے مسلم ملت جس کے وہ سربراہ تھے ابتدا ہی سے مسلم قبائل سے بالاتر تھی۔

       یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ قرآن کے متذکرہ بالا امتناعی احکام کی کس طرح تشریح کی گئی۔ پھر بھی کچھ بات واضح ہے۔ پیغمبر *صنعت کاروں* کی مہارت کی قدر کرتے تھے لیکن ان کا کہنا تھا، کہ مذہبی شیرازہ بندی کے معاملات میں ، جن میں ان کو خاص ملکہ تھا، ان کے حکم کی تعمیل کی جائے۔ باوجود اس کے کہ قرآن میں اس قسم کی کوئی وعید نہیں۔ عمدہ مثال کے طور پر ہم پیغمبر کے ان احکام و ہدایات کاذکر کر سکتے ہیں کہ اسلام خانقاہیت نہیں ہے، یا یہ کہ اس ریاضت کی اجازت نہیں ہے، جس کا مقصد جسم کو تکلیف پہنچانا ہو ، یا یہ کہ کوئی شخص اپنی ملکیت میں سے ایک ثلث سے زیادہ وقف نہیں کر سکتا، اور باقی ماندہ سے اپنے ورثہ کو محروم نہیں کر سکتا۔

      دوسری جانب یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اپنے مشن کی نوعیت کے اعتبار سے پیغمبر کو اس بات کا خیال رکھنا ضروری تھا کہ تمام مردوں اور عورتوں کو ان تک رسائی حاصل ہو ، وہ سمجھانے، سیکھنے اور یقین دلانے کے لیے بھیجے گئے تھے لیکن تمام مردوں اور عورتوں سے عوامی امور میں رائے طلب کرنا مشکل تھا، اس لیے ہم پیغمبر کے *مشیروں* کی ایک جماعت پاتے ہیں، جو بعد کے دور کے حکمراں طبقہ کا پیش خیمہ بنی۔ *مشیروں کے تین گروہ تھے*_
⤵️2⃣

No comments