85782D785359AA17AB647B72067E8792 Hind history part 6 - Wali Khan Kakar

Breaking News

Hind history part 6

⤴️4⃣
        "محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی فہم سلیم نے شاہانہ کروفر کو پسند نہ کیا۔ خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو زندگی کے معمولی کام کیے۔ چولھے سلگائے، دودھ دوہے، اپنے جوتے اور اونی کپڑے خود سیتے۔ ایک راہب کے عقوبت نفس کے بر خلاف وہ ایک عرب یا فوجی کی طرح سوکھی غذا بغیر کسی خود پسندی کے استعمال کرتے۔ مخصوص موقعوں پر وہ اپنے صحابیوں کی معمولی مگر افراط سے تواضع کرتے۔ مگر خانگی زندگی میں پیغمبر کے گھر میں ہفتوں چولہا نہیں سلگتا تھا۔ ان کی بھوک مختصر جَو کی روٹی سے مٹ جاتی۔ وہ دودھ اور شہد کو پسند کرتے مگر ان کی عام غذا کھجور اور پانی تھی، صحابہ کی روایتوں سے معلوم ہو تا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قد و قامت اور صورت کے اعتبار سے ایک امتیازی شان رکھتے تھے۔ یہ عطیہ حسن ایک ایسی نعمت ہے جس سے بہت کم لوگ بے اعتنائی برتتے ہیں، سوائے ان کے جو خود اس سے محروم ہوں۔ لوگ ان کی باوقار شخصیت، ان کی با اثر آنکھوں، ان کی خوش کن مسکراہٹ، لہراتی داڑھی اور ان کے بشرے جسم سے روح کا ہر تصور ظاہر ہوتا ہے، اور ان کے انداز جوان کی گفتگو کو اور موثر بناتا، کے مداح تھے۔“

      پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کا محض ایک مختصر ذکر یہاں کافی ہوگا۔ ان کی بنیادی سیاست یہ تھی کہ جنگ اور معاہدوں دونوں کے ذریعے اپنے مذہب کے مخالفوں کو سخت سزا اور بعض اوقات رحمدلی اور کریم النفسی کے ذریعہ ہم خیال بنایا جائے۔ تین جنگیں جو قریش کے مدینہ پر حملہ کی وجہ ہوئیں۔ جنگ بدر (مارچ 624ء) جنگ احد(مارچ 625 ء) اور جنگ خندق (مارچ اپریل 627 ء) مدینہ میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اثر کو کم کرنے میں ناکام رہیں۔ بلکہ ان کے مخالفین کی شکست سے یہ اور زیادہ بڑھی کیونکہ تینوں جنگوں میں مسلمانوں کی تعداد بہت ہی کم تھی۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ان قیدیوں سے جو اس قابل تھے فدیہ لے کر اور دوسروں کو بلا شرط آزاد کردیا تا کہ وہ اپنے مخالفین کے اخلاق اور دین کے متعلق غور کر سکیں۔

     مارچ 628ء میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے امن پسند (صلح جویانہ) اقدام کا فیصلہ کیا اور *بارہ سو یا چودہ سو *جاج* کو احرام بندھوا کر اور قربانی کے جانور ساتھ لے کر عمرہ کی غرض سے روانہ ہوئے لیکن *متبرک* علاقے کے نزدیک واقع *حدیبیہ* پہنچ کر ان کو معلوم ہوا کہ قریش نے جن کی رہنمائی اس وقت تین اشخاص
عکرمہ بن ابو جہل،
سہیل بن عمرو
صفیان بن امویہ
    کر رہے تھے۔ جنگ کرنے کا عہد کیا ہے۔ پھر بھی اپنے باز نطانی تجارت کے نقصانات کی وجہ سے وہ مندرجہ ذیل شرائط پر سمجھوتہ کرنے کو تیار تھے۔
١. حج دوسرے سال
٢. ہر قبیلہ پغمبر صلی اللہ علیہ وسلم یا قریش کا حلیف بننے کے لیے آزاد ہو
٣. پیغمبر اور قریش کے درمیان دس سالہ امن کا معاہدہ جس کی رو سے) کسی ایک دوسرے کے حلیف قبیلہ پر حملہ نہ کرنا ہوگا۔
٤. قریش کا کوئی آدمی بغیر اپنے مالک یا ولی کی اجازت کے اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے گا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کو واپس کر دینا ہوگا اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کا کوئی آدمی قریش کے پاس آئے گا تو وہ واپس نہیں کیا جائے گا۔

    آخری دفعہ کا اطلاق خاندان کے سردار یا شادی شدہ افراد پر نہیں تھا لیکن قریش خاندان کے سرداروں کو اپنے ان باتوں کو جو اسلام قبول کر چکے تھے زد و کوب کرنے اور ازیت دینے کا موقع فراہم کر دیا۔ قبائلی نظام کے پیرو عرب میں مدینہ کو ہجرت کی ایک واحد حفاظت تھی جو اسلام قبول کرنے والوں کو دی جا سکتی تھی۔

      لیکن ایک معاہدہ کی رو سے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اسلام قبول کرنے والوں کو حفاظت کے اس حق سے دستبردار ہو رہے تھے۔ جہاں تک قریش کا تعلق تھا یہ بات معاہدہ میں درج
تھی لیکن کنایتا یہ ان تمام کافر قبیلوں کو بھی مل گیا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرو اور قریب ترین احباب ان پر اعتقاد اور ان کی تعظیم سے بھی نہیں پھٹکے۔ لیکن سب اس معاہدہ کے مخالف تھے۔ اگر اس بات پر استصواب رائے ہوتا تو *صلح حدیبیہ* یقینی طور پر منظور نہ ہوتی لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم معاہدہ کو منظور کرنے پر مصر تھے۔ ان کو اپنے مذہب کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر یقین تھا۔ کوئی مسلمان بت پرستی کی طرف واپس نہیں ہوا۔ اور عرب بت پرست اسلام میں داخل ہوتے گئے جو ان کے لیے مقدر تھا۔ وہ معاہدے کی دفعات کو توڑنا نہیں چاہتے تھے لیکن ان کو یقین تھا کہ اللہ کوئی راہ نکال دے گا۔ انھوں نے معاہدہ پر مہر لگائی اور اپنے ماننے والوں سے اپنے لیے وعدہ لیا۔ *بیت الرضوان* سبھوں نے اس وقت موجود تھے عہد لیا۔
⤵️4⃣

No comments