85782D785359AA17AB647B72067E8792 Hind history part 8 - Wali Khan Kakar

Breaking News

Hind history part 8

⤴️6⃣
اگر وہ معاہدے جو روایت کے ذریعے ہم تک پہنچے ہیں ان کی کوئی اہمیت ہے تو پیغمبر کو مسلمان اور اہل کتاب کے سیاسی جماعت کا سربراہ ہونے اور ان کو (اہل کتاب کو )مذہبی آزادی دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ اہل کتاب کو مراعات دینے کی وجہ سے بعد کے مسلم علماء کے اس لفظ کو صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص کر دیا جن کے صحیفوں کا ذکر قرآن میں ہے لیکن قرآن صاف کہتا ہے کہ اس میں کل انبیاء کا نام (ذکر) نہیں اور (اس طرح) کنایتا دیگر بھیجے ہوئے صحیفوں کے نام بھی نہیں ہیں)۔ علماء نے جو حد بندی کی ہے وہ قرآن کی تصدیق کردہ نہیں۔

       مسلمان مورخوں نے 9 ہجری ( اپریل630 تا اپریل 631ء) کو سنہ وفود کے ہے۔ ان علاقوں کے علاوہ جن پر *غسان* اور *حیرہ* کا تسلط تھا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرب کے تمام حصوں سے وفود پہنچے اور آپ نے اللہ اور اس کے رسول کے نام پر (ان سے) حفاظتی معاہدے کیے۔ پیغمبر تحریری معاہدوں کے قائل تھے۔ اور وہ خطوط بھی صاف واضح اور مختصر طور پر لکھواتے جو بیشتر معاہدے کی نوعیت کے ہوتے تھے۔ ان معاہدوں میں مسلمانوں کے فرقوں اور قبیلوں اور یہودیوں، عیسائیوں اور زرتشتو کی منظم جماعتوں کے امور کے متعلق ہدایات ہوتیں۔ موخر الذکر کو پہلے لیں۔ معاہدوں میں صاف طور پر یہ درج ہوتا ہے کہ *غیر مسلم* جماعت کو *یکمشت نقد* یا *سالانہ پیداوار* کا کچھ حصہ دینا ہو گا۔ اور معاہدوں میں اس کی بھی ضمانت ہوتی کہ اس مقررہ خراج سے زیادہ طلب نہیں کیا جائے گا اور نہ ان کے مذہبی معاملات میں دخل دیا جائے گا۔ اس کی مخصوص مثال *خیبر* کے اور *ایلا* میں واقع *مگنہ* کے یہودیوں کے ساتھ کے معاہدے ہیں۔ آپ کا ایک خط) مگنہ کے یہودی کے نام، کل عمدہ کپڑے، فوجی سامان، غلام اور کھجور کی پیداوار کا چوتھائی حصہ مچھلیاں اور پہنے ہوئے کپڑے کی طلب
کے بعد یوں ختم ہوتا ہے اس کے بعد تم لوگ ہر طرح کے خراج (جزیہ ) اور بیگار سے آزاد ہو ۔ “ جنوبی عرب کے *نجران* کے *نسٹورین* فرقہ کے *عیسائیوں* کا وفد رپیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسجد میں حاضر ہوا اور ان کے نمائندوں کو مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ ان لوگوں سے سال میں دو بار دو ہزار پوشاک (وردی) دینے اور یمن میں مقامی جنگ کی صورت میں تیس زره، تیس گھوڑے اور تیس اونٹ دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس کے عوض انھیں اللہ اور رسول کا تحفظ (جوار، ان کی ذات، مال اور معیشت اور ان کے گرجوں اور عبادتوں کے لیے ہمیشہ حاصل رہے گا۔ کوئی اسقف (Bishop) اپنے علاقے سے ، کوئی راہب اپنے راہبانہ عہدے سے اور کسی گھرجا کے پاسبان (نگران) کو اپنے عہدے سے علیحدہ نہیں کیا جائے گا۔ یہ حکم بھی جاری کیا گیا کہ مشرقی عرب کے صوبہ *بحرین* کے *زرتشتوں* سے *جزیہ* لیا جائے اور ان کے مذہب کا احترام کیا جائے۔

     مسلمانوں سے تین مطالبے کیے گئے۔ صدقہ ،زکوۃ اور عشر۔ قرآن نے صدقہ کو اس طرح واضح کیا ہے۔ جو تم دے سکو“ ( سور 2-219)زکوة کے بعد کے فقہاء نے آمدنی کا 2.5 فیصد بیان کیا ہے۔ انھیں اس جمع شدہ سرمایہ پر بھی زکوت دینا واجب قرار دیا جسے تجارتی کاموں میں نہ لگایا جائے مثلا سونے اور چاندی کے زیورات۔ عشر کا مطلب پیداوار کا دسواں حصہ یا ڈول کے ذریعے آپ پاشی کی صورت میں پیداوار کا بیسواں حصہ۔ مشرک عربوں کے لیے کوئی علیحدہ انتظام نہ کیا گیا۔ امید یہ تھی کہ وہ مناسب وقت پر اسلام قبول کرلیں گے۔ اس کے بر عکس، جزیہ کے تصور بطور ایک علیحدہ ذاتی اور مزید ٹیکس کے جو غیر مسلموں پر غیر مسلم رہنے کی وجہ سے عائد ہوتا تھا اور جس کی وضاحت بعد کے عہد کی فقہ کی کتابوں میں ملتی ہے، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات سے صحیح ثابت نہیں ہوتا۔

     اب دیکھنا یہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری دو تین سال میں عرب پر کس طرح حکومت کی گئی۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کسی قسم کی *پولیس یا پیشہ ور یا مستقل فوج* نہ تھی اور نہ کوئی مستقل دیوانی ملازمتیں۔ یہ بات کافی زور دیکر کہی جاسکتی ہے کی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی حکومت یا ریاست قائم نہیں کی۔ انھوں نے قبیلوں اور فرقوں کی آزادی بر قرار رکھی اور یہ آزادی اس عہد کی روایات کے مطابق تھی۔ وہ یقینا اس خاندانی شہنشاہیت سے بیزار ہوتے جو بعد میں ان کے پیروں نے اپنے سماجی اور سیاسی ڈھانچے کے جزو لا ینفک کے طور پر قائم کردی۔ انھوں نے اس (شہنشاہیت) کے متعلق بھی سوچا بھی نہیں اور نہ اس کے متعلق کوئی قانون بنایا۔ فطرتا وہ استدلال سے کام لینا پسند کرتے تھے نہ کہ مستبدانہ اختیارات کے ذریعے اور عہدناموں سے جو اختیارات انھیں حاصل ہوئے تھے اس کے اصول پر عرب کو متحد کرنا چاہتے تھے۔
⤵️6⃣

No comments