85782D785359AA17AB647B72067E8792 Hind history part 7 - Wali Khan Kakar

Breaking News

Hind history part 7

⤴️5⃣
     صلح حدیبیہ حقیقت میں جو اسلام کی فتح تھی۔ مکہ سے سربر آوردہ لوگ مدینہ ہجرت کرنے گئے۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور *خالد بن ولید* تھے جو اوائل اسلام کے سب سے بڑے فوجی ماہر تھے۔ اور *عمرو بن العاص* جنھوں نے بعد میں *مصر* فتح کیا۔ تقریبا ستر نو مسلموں نے، جنھیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کی دفعات کے مطابق مدینہ میں پناہ نہ دی تھی، مکہ سے شمال کی جانب اپنا آزاد مرکز قائم کر لیا اور مکہ کے کاروانوں کو لوٹنا شروع کیا۔ قریش نے اپنی مصیبتوں سے تنگ آکر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے استدعا کی کہ انھیں مدینہ میں بلا لیا جائے تاکہ وہ لوگ بھی معاہدہ کی دفعات کے پابند ہو جائیں اس طرح صلح نامے کی یہ غیر مساوی دفعہ ختم ہو گئی۔

      مکہ کے *ارباب ثلاثہ* کو دس سالہ معاہدہ کی مدت کو اپنی تجارت کو فروغ دینے اور اپنے پرانے دین کو بر قرار رکھنے کے لیے ایک بڑی اتحادی جماعت کی بنیاد ڈالنے کے لیے استعمال کرنا چاہیئے تھا لیکن وہ کو تاہ نظر ثابت ہوئے۔ *بنو خزاعه* ، جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیف تھے اور بنو بکر جو قریش کے (حلیف) تھے کے درمیان ایک جھگڑا ہوا۔ مکہ اور مدینه (والوں کو بالکل غیر جانبدار رہتا تھا لیکن قریش نے خزاعہ کو کچل ڈالنے کی خاطر بنوبکر کی مدد کی اور اس کے بعد اپنے عمل کے تاریخ کے متعلق سوچنے لگے۔ چنانچہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کرنے، اس سر زمین پر قبضہ کرنے اور اس کے باشندوں کو ہم خیال بنانے اور اس مقام امن (حرم) کو وہ درجہ دینے کا جو اس کو قبل کبھی حاصل نہیں ہوا تھا۔ فیصلہ کیا، لیکن وہ یہ کام اس وقت کر سکتے تھے جبکہ ان کے پاس اتنی طاقت ہو کہ ان کی مخالفت کو ناممکن بنادے اور کہا جاتا ہے کہ انھوں نے تقریبا *دس ہزار* کی جماعت تیار کر لی۔ اس کوچ کی وجہ اس وقت تک ظاہر نہیں کی گئی جب تک کہ فوج *مکہ* سے صرف دو منزل نہ رہ گئی۔ *سفیان بن حرب* (بعد کے خلیفہ معاویہ کے باپ ) جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمیشہ سے دشمن تھے ان سے ملنے آئے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پناہ دی اور ان سب لوگوں کو بھی پناہ دی جو ان کے گھر میں پناہ گزیں ہوئے۔ بعد میں ان تمام لوگوں کو جو اپنے دروازے بند کر کے اپنے مکانوں میں رہ گئے تھے پناہ دی گئی۔

      مسلمانوں کے فوجی دستے شہر میں ہر چہار جانب سے داخل ہوئے ( 11/جنوری 630ء) لیکن لوٹ مار اور غارت گری کے خلاف سخت حکم نافذ کیے گئے
تھے۔ خالد کی سرکردگی میں جو فوجی دستہ تھا اس نے *اٹھائیس* مخالفوں کو قتل کیا۔ لیکن دیگر دستے پر امن طور پر شہر میں داخل ہوئے۔ کعبہ اور ذاتی مکانوں سے بتوں کو ہٹادیا گیا اور *عثمان بن طلہ* کا جو *کعبہ کے محافظ* (شیبی) تھے ، از سر نو تقرر کیا گیا۔ معاہدہ کی کسی دفعہ کے طور پر کسی کو بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا۔ ان لوگوں کی جنھوں نے مخصوص جرائم کا ارتکاب کیا تھا، ایک فہرست شائع کی گئی۔ لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں معافی کی درخواست نے اس فہرست کو بہت مختصر بنادیا۔ پیغمبر کے خلاف گزشتہ سیاسی اور فوجی مخالفت کو جرم نہیں سمجھا گیا۔ اور ان کے سخت مخالفین مثلا *سفیان بن حرب* اور مکہ کے *ارباب ثلاثہ* کے ممبران نے نئی حکومت کی خدمت کی اور فلاح پائی۔

       قریش کے سردار ہو جانے کے بعد پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو فورا *ہوازن* کے *بدو قبیلہ* اور *طائف* کے *ثاقف* کی جنھوں نے *بیس ہزار فوج* جمع کر لی تھی مخالفت کا مقابلہ کرنا پڑا۔ ان لوگوں کو *جنگ حنین* میں شکست ہوئی اس جنگ کی ایک قابل ذکر بات یہ تھی کہ جانبین نے ایک دوسرے کی جان لینے سے احتراز کیا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے مال غنیمت کے طور پر ان کے مویشی لے لیے لیکن مخالفوں کے نئے مذہب اسلام قبول کر لینے پر ان کی بیویاں اور بچے واپس مل گئے۔

      قرآن کہتا ہے کہ مذہب میں کوئی دباؤ نہیں (لااکراہ فی الدین) (سورہ256:2 ) اپنی تبلیغ کے ابتدائی تیرہ سالوں تک پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مذہبی اصولوں کو امن کی بنیاد پر رکھا۔ مدینہ میں ان کی گفتگو، جس طور پر یہ ثقہ روایات میں درج ہے، اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ وہ اپنے دین کی اشاعت اس طور پر کرنا چاہتے تھے جیسا کہ کسی بھی دین کے پیغمبر کو کرنا چاہئے۔ یعنی بحث رضامندی اور منظوری کے ذریعے ۔ وہ کفار عرب کے بت پرستی کے اصول کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ لیکن انھوں نے ان کے اور اہل کتاب کے درمیان میں امتیاز قائم کیا۔ قرآن صاف صاف بیان کرتا ہے کہ موخر الذکر نے ابتدا سچائی سے کی لیکن غلطی کی جانب مائل ہو گئے لہذا باوجود اس کے کہ وہ ایمانداروں میں شمار نہیں کیے گئے لیکن ایک منظور شده مذہب (دین) کے ماننے والے قبول کیے گئے۔ اب آٹھ سال کی کامیاب جد و جہد کے بعد پیغمبر اپنے پرانے تجربات کو آزمانا چاہتے تھے۔
⤵️5⃣

No comments