Hind part 6
⤴️3⃣
مدینہ کے مہاجر جنھوں نے اسلام کی بیحد خدمت کی تھی۔ مدینہ کے مسلم قبیلوں کے سردار (انصار ) اور فوجی اور انتظامی امورکے ماہرین۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ میں "جی حضور" قسم کے لوگوں کی ضرورت نہ تھی۔
اکثر انھوں نے اپنے صحابیوں کے مشورہ ) کو اپنی رائے پر ترجیح دی، اور ان کی اجتماعی رائے کو مسترد کر دیا۔ بعض مواقع پر انھوں نے ان کی رائے طلب کی اور اس وقت تک مشورہ کرتے رہے جب تک کوئی حل برآمد نہ ہوا۔ لیکن آخری فیصلہ پیغمبر پر منحصر تھا۔ چند معمولی معاملات میں ہم انھیں اپنی غلطی کا معترف پاتے ہیں، لیکن زیادہ تر موقعوں پر وہ صحابیوں کو اپنی اصابت رائے کا قائل کرنے میں کامیاب رہے_ منافقوں کے اس گروہ کے علاوہ، جن کا ذکر قرآن میں ہے مگر نام نہیں، ایسے ایماندار بھی تھے جنھوں نے امن و جنگ کے موقعوں پر خصوصا *تقسیم مال غنیمت* کے متعلق پیغمبر کے اقدام سے اختلاف رائے کیا۔ ان اعتراضات اور پیغمبر کے جوابات کا ذکر محفوظ ہے۔ بہر کیف، اگرچہ وہ کسی لحاظ سے بھی ایک *مستند حکمراں* نہ تھے لیکن خوشحال عرب کی تاریخ میں *محمد* صلی اللہ علیہ وسلم پہلے منتظم یا حاکم تھے۔ اگر وہ جنگ کا فیصلہ کرتے تو فوج کا سالار خود مقرر کرتے اور لڑنے والوں کی جماعت تیار کرتے۔ وہ قوم کے چندے (صدقات ، زکوة) سے جنگ کے لیے رقم جمع کرتے۔ جنگ میں فتحیاب ہونے پر وہ مال غنیمت کا 4/5 حصہ اپنے لوگوں میں تقسیم کر دیتے، اور باقی 1/5 حصہ مخصوص قومی کاموں کے لیے اپنے پاس رکھتے۔ جب ان کے اثر و رسوخ میں وسعت آئی تو انھوں نے اپنے قائم مقام نمائندے مقرر کیے، اور ان کو جیسا مناسب سمجھا اختیارات تفویض کیے۔ صلاح و مشورہ بلکہ حق اعتراض کی پابندی کے باوجود تمام معاملوں میں آخری فیصلہ پیغمبر ہی کا ہوتا تھا۔
قرآن اس امر کی تائید کرتا ہے کہ پیغمبر کا بحیثیت پیغمبر احترام کیا جائے۔ چونکہ ان کے گھر میں کوئی ملازم نہ تھا، اس لیے ملنے والوں کو اندر آنے کے لیے تین بار آواز دینے کی ہدایت تھی۔ اگر تیسری آواز کے بعد بھی اجازت نہ ملے تو ان کو ناگوار نہ ہونا چاہیے، اور دوسرے وقت حاضر ہونا چاہیئے۔ پیغمبر بھی اسی اصول کو برتتے تھے۔ جب وہ خود کسی سے ملنے جاتے۔ لوگوں کو ہدایت تھی کہ وہ پیغمبر سے گفتگو میں ان کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کریں۔ جب پیغمبر مسجد میں آتے تو نمازیوں سے یہ توقع نہیں کی جاتی، کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے خاطر کھڑے ہوں، لیکن ان کو مرکز میں جگہ دینے کے لیے ان لوگوں کو تھوڑ ہٹنا پڑتا۔
پیغمبر کے پاس صرف ایک جگہ تھی *مسجد* جہاں پانچوں وقت نماز پڑھتے اور کل کاموں کو انجام دیتے۔ *مولانا شبلی* کہتے ہیں کہ پیغمبر کی مسجد کا تصور *ہندستانی عیدگاہ* سے کر سکتے ہیں، ایک کچی نیچی دیوار زمین کے ایک بڑے حصے کو گھیرے ہوئے تھی۔ اس
کے ایک حصہ پر کھجور کے پتوں کی چھت تھی، جو کھجور کے درختوں کے تنے پر قائم تھی۔ خطبہ کے دوران پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی ایک ستون کا سہارا لیتے تھے، لیکن بعد میں ایک بڑھئی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک ممبر بنادیا۔ یہ تین زمینوں کا ایک اونچا ڈھانچہ تھا، جس پر آپ کھڑے ہو کر تقریر کر سکتے تھے۔ (مسجد کی زمین) ایک مدت تک بنی رہی، لیکن بعد میں پتھر کے چھوٹے ٹکڑوں سے اس کی فرش بندی کر دی گئی، تاکہ برسات کا پانی نہ جمع ہونے پائے۔
پیغمبر کے پاس حکومت یا ریاست کا کوئی ساز و سامان نہ تھا۔ انھیں خزانہ کی ضرورت نہ تھی، کیونکہ جو رقم (آتی) اسی دن تقسیم ہو جاتی۔ ان کے دور دراز حصوں کے ایجنٹوں ( نمائندوں) کو اختیار حاصل تھا کہ کچھ فوجی بھرتی کرلیں لیکن خود پیغمبر کے لیے کوئی محافظ ، فوبی یا پولیس نہ تھی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی اس طرح بسر کی جیسی ایک پیغمبر کو چاہئے۔ (یعنی) بلا کسی قسم کی محافظت کی زندگی۔ بعد کی تحریروں میں کچھ لوگوں کے نام ان کی خدمت گزار کی حیثیت سے ملتے ہیں لیکن ان اشخاص کی خدمات محض اعزازی تھیں۔ ہم لوگوں کو ان لوگوں کے نام بھی ملے ہیں جو پیغمبر کے معتمد تھے، لیکن ان کی خدمات بھی یقینا رضاکارانہ ہوں گی۔ پیغمبر کا کوئی دفتر یا محکمہ نہ تھا اور ہم لوگوں کو اس کا علم نہیں کہ صلح ناموں، معاہدوں اور دیگر کاغذات جس کی نقلیں آئنده حوالے کے لیے پیغمبر ضرور رکھ لیتے ہوں گے کس طرح محفوظ رکھے جاتے تھے۔ پیغمبر کی ایک مہر تھی، اور جب کوئی خط لکھواتے یا معاہدہ کرتے تو گواہوں کے نام ضرور لکھے جاتے۔
گیبن( Gibbon) کے مندرجہ ذیل بیان کی تائید پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تمام مستند روایات میں ملتی ہیں۔
⤵️3⃣
مدینہ کے مہاجر جنھوں نے اسلام کی بیحد خدمت کی تھی۔ مدینہ کے مسلم قبیلوں کے سردار (انصار ) اور فوجی اور انتظامی امورکے ماہرین۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ میں "جی حضور" قسم کے لوگوں کی ضرورت نہ تھی۔
اکثر انھوں نے اپنے صحابیوں کے مشورہ ) کو اپنی رائے پر ترجیح دی، اور ان کی اجتماعی رائے کو مسترد کر دیا۔ بعض مواقع پر انھوں نے ان کی رائے طلب کی اور اس وقت تک مشورہ کرتے رہے جب تک کوئی حل برآمد نہ ہوا۔ لیکن آخری فیصلہ پیغمبر پر منحصر تھا۔ چند معمولی معاملات میں ہم انھیں اپنی غلطی کا معترف پاتے ہیں، لیکن زیادہ تر موقعوں پر وہ صحابیوں کو اپنی اصابت رائے کا قائل کرنے میں کامیاب رہے_ منافقوں کے اس گروہ کے علاوہ، جن کا ذکر قرآن میں ہے مگر نام نہیں، ایسے ایماندار بھی تھے جنھوں نے امن و جنگ کے موقعوں پر خصوصا *تقسیم مال غنیمت* کے متعلق پیغمبر کے اقدام سے اختلاف رائے کیا۔ ان اعتراضات اور پیغمبر کے جوابات کا ذکر محفوظ ہے۔ بہر کیف، اگرچہ وہ کسی لحاظ سے بھی ایک *مستند حکمراں* نہ تھے لیکن خوشحال عرب کی تاریخ میں *محمد* صلی اللہ علیہ وسلم پہلے منتظم یا حاکم تھے۔ اگر وہ جنگ کا فیصلہ کرتے تو فوج کا سالار خود مقرر کرتے اور لڑنے والوں کی جماعت تیار کرتے۔ وہ قوم کے چندے (صدقات ، زکوة) سے جنگ کے لیے رقم جمع کرتے۔ جنگ میں فتحیاب ہونے پر وہ مال غنیمت کا 4/5 حصہ اپنے لوگوں میں تقسیم کر دیتے، اور باقی 1/5 حصہ مخصوص قومی کاموں کے لیے اپنے پاس رکھتے۔ جب ان کے اثر و رسوخ میں وسعت آئی تو انھوں نے اپنے قائم مقام نمائندے مقرر کیے، اور ان کو جیسا مناسب سمجھا اختیارات تفویض کیے۔ صلاح و مشورہ بلکہ حق اعتراض کی پابندی کے باوجود تمام معاملوں میں آخری فیصلہ پیغمبر ہی کا ہوتا تھا۔
قرآن اس امر کی تائید کرتا ہے کہ پیغمبر کا بحیثیت پیغمبر احترام کیا جائے۔ چونکہ ان کے گھر میں کوئی ملازم نہ تھا، اس لیے ملنے والوں کو اندر آنے کے لیے تین بار آواز دینے کی ہدایت تھی۔ اگر تیسری آواز کے بعد بھی اجازت نہ ملے تو ان کو ناگوار نہ ہونا چاہیے، اور دوسرے وقت حاضر ہونا چاہیئے۔ پیغمبر بھی اسی اصول کو برتتے تھے۔ جب وہ خود کسی سے ملنے جاتے۔ لوگوں کو ہدایت تھی کہ وہ پیغمبر سے گفتگو میں ان کی آواز سے اپنی آواز بلند نہ کریں۔ جب پیغمبر مسجد میں آتے تو نمازیوں سے یہ توقع نہیں کی جاتی، کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کے خاطر کھڑے ہوں، لیکن ان کو مرکز میں جگہ دینے کے لیے ان لوگوں کو تھوڑ ہٹنا پڑتا۔
پیغمبر کے پاس صرف ایک جگہ تھی *مسجد* جہاں پانچوں وقت نماز پڑھتے اور کل کاموں کو انجام دیتے۔ *مولانا شبلی* کہتے ہیں کہ پیغمبر کی مسجد کا تصور *ہندستانی عیدگاہ* سے کر سکتے ہیں، ایک کچی نیچی دیوار زمین کے ایک بڑے حصے کو گھیرے ہوئے تھی۔ اس
کے ایک حصہ پر کھجور کے پتوں کی چھت تھی، جو کھجور کے درختوں کے تنے پر قائم تھی۔ خطبہ کے دوران پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی ایک ستون کا سہارا لیتے تھے، لیکن بعد میں ایک بڑھئی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک ممبر بنادیا۔ یہ تین زمینوں کا ایک اونچا ڈھانچہ تھا، جس پر آپ کھڑے ہو کر تقریر کر سکتے تھے۔ (مسجد کی زمین) ایک مدت تک بنی رہی، لیکن بعد میں پتھر کے چھوٹے ٹکڑوں سے اس کی فرش بندی کر دی گئی، تاکہ برسات کا پانی نہ جمع ہونے پائے۔
پیغمبر کے پاس حکومت یا ریاست کا کوئی ساز و سامان نہ تھا۔ انھیں خزانہ کی ضرورت نہ تھی، کیونکہ جو رقم (آتی) اسی دن تقسیم ہو جاتی۔ ان کے دور دراز حصوں کے ایجنٹوں ( نمائندوں) کو اختیار حاصل تھا کہ کچھ فوجی بھرتی کرلیں لیکن خود پیغمبر کے لیے کوئی محافظ ، فوبی یا پولیس نہ تھی۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی اس طرح بسر کی جیسی ایک پیغمبر کو چاہئے۔ (یعنی) بلا کسی قسم کی محافظت کی زندگی۔ بعد کی تحریروں میں کچھ لوگوں کے نام ان کی خدمت گزار کی حیثیت سے ملتے ہیں لیکن ان اشخاص کی خدمات محض اعزازی تھیں۔ ہم لوگوں کو ان لوگوں کے نام بھی ملے ہیں جو پیغمبر کے معتمد تھے، لیکن ان کی خدمات بھی یقینا رضاکارانہ ہوں گی۔ پیغمبر کا کوئی دفتر یا محکمہ نہ تھا اور ہم لوگوں کو اس کا علم نہیں کہ صلح ناموں، معاہدوں اور دیگر کاغذات جس کی نقلیں آئنده حوالے کے لیے پیغمبر ضرور رکھ لیتے ہوں گے کس طرح محفوظ رکھے جاتے تھے۔ پیغمبر کی ایک مہر تھی، اور جب کوئی خط لکھواتے یا معاہدہ کرتے تو گواہوں کے نام ضرور لکھے جاتے۔
گیبن( Gibbon) کے مندرجہ ذیل بیان کی تائید پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تمام مستند روایات میں ملتی ہیں۔
⤵️3⃣
No comments