تاریخ ہند💫 قسط نمبر ٢
💫تاریخ ہند💫
قسط نمبر ٢
╭┅•🌷 ͜✯͜͡ ͜͡ ͜͡ ﷽ ͜͡ ✯͜ 🌷•┅╮
🔴پیغمبرؑ کا حفاظتی نظام🔴
حضرت پیغمبرؑ کے سب سے بڑے ہندستانی سوانح نگار "مولانا شبلی" پیغمبر کو صرف دنیاوی آدمی نہیں سمجھتے ۔ اس لیے کہ اصولی طور پر وہ ان کو ایک روحانی اور اخلاقی مصلح مانتے ہیں۔ یہ صحیح ہے اور پیغمبر کی کوئی سوانح، مختصر سے مختصر بھی، ان کی مذہبی تبلیغ کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ پھر بھی سیاسی اداروں کے نقطہ نظر سے حضرت پیغمبر کا سب سے بڑا کارنامہ وہ حفاظتی نظام ہے، جو انھوں نے پورے عرب کے لیے قائم کیا۔ سوائے ان علاقوں کے جو باز نطینی اور فارس کے تحت تھے۔ اسی بنیاد پر ان کے جانشینوں نے ڈھانچہ تیار کیا۔
حضرت محمدؑ ابن عبد الله عبد المطلب بن ہاشم قریشی ء ۵۷۰ کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا ان کی ولادت سے قبل انتقال ہو گیا تھا، اور وہ چھ سال کے تھے کہ ان کی والدہ آمنہ بھی انتقال کر گئیں۔ اس لیے ان کے چچا ابو طالب نے جو قبیلہ کے سردار اور چچا زاد بھائی "علی" کے باپ تھے ان کی پرورش کی، ابو طالب کی مالی حالت اچھی نہیں تھی اس لیے محمدؑ کو بچپن ہی میں بکریاں چرانا پڑا، لیکن جوانی میں انھوں نے کاروانوں کے انتظامات میں ایک ایمان دار اور قابل اعتماد کار گزار کی حیثیت سے نام حاصل کیا۔ جبکہ وہ پچیس سال کے تھے، تو انھوں نے ایک دولت مند بیوہ "خدیجہ" سے جو چالیس سال کی تھیں اور جن کے کاروانوں کے وہ انتظام کار تھے شادی کر لی۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ پیغمبر کی سوانح اور حدیثوں کے جمع کرنے والوں نے ان کے اس "تمہیدی دور زندگی" کے متعلق بہت ہی کم لکھا ہے۔ لیکن دو مفروضے باآسانی پیش کیے جا سکتے ہیں۔ جب سارے عرب کا حفاظتی نظام ان کے ہاتھوں میں آیا اس وقت یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں تمام قبیلوں اور فرقوں کے باہمی اختلافات اور مالی حالت کی اتنی مکمل واقفیت تھی کہ اس میں کوئی انھیں فریب نہیں دے سکتا تھا۔ دوسرے یہ کہ انھوں نے یہودی، عیسائی اور یونانی ( Helenie) خیالات، جو عرب میں جاری تھے ، کا بغور مطالعہ کیا تھا۔ یہ روایت صحیح ہی ہے کہ وہ کئی کئی دنوں کے لیے اپنے مختصر توشہ کے ساتھ غور و فکر کے لیے ”حرا“ کے غیر آرام دہ غار میں رہتے تھے۔
اپنی عمر کے چالیسویں سال میں محمدؑ کو ایک طویل روحانی تجربے سے گزرتا پڑا جس سے ان کو یہ یقین ہو گیا کہ وہ اللہ تعالی کی جانب سے نبی اور رسول بنائے گئے ہیں تاکہ قدیم انسانیت کے مذاہب یعنی حضرت آدمؑ و نوحؑ موسیؑ اور عیسیؑ اور ان تمام انبیاء جن کے درمیان ہم کوئی اختلاف نہیں پاتے“ (سورہ نمبر 2 رکوع 136) کے مذہب کو جو پھر سے جاری اور ساری کریں اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ اس عیسائیت اور یہودیت کو جو اس وقت وہاں مروج تھی۔ صحیح تسلیم کرتے تھے۔ وہ حضرت عیسٹی کا بحیثیت روح اللہ اور کلمۃ اللہ بہت احترام کرتے تھے لیکن توحيد في التثلیث کے نظریے کے وہ سخت مخالف تھے۔ جہاں تک یہودیوں کا تعلق ہے وہ (محمد) اس بات سے انکار کرتے تھے کہ کسی بھی قوم کے افراد خود کو پیدائشی طور پر چنیدہ بندے، تصور کر سکتے تھے۔ قرآن کہتا ہے کہ تم میں اچھے وہی ہیں جن کو اللہ کا قرب حاصل ہے۔ محمد کا اللہ کسی قبیلہ کا دیوتا نہیں بلکہ سارے جہاں کا مالک (رب العالمین) ہے۔ ( انھوں نے ) کفار عرب سے کہا کہ ”جن دیوتاؤں کو تم اللہ کی بیٹیاں سمجھ کر پوجتے ہو یا جن کو درمیانی درجہ دیتے ہو (ذریعہ نجات سمجھتے ہو ان کا کوئی وجود نہیں۔ اللہ کی عبادت براہ راست کرنی چاہیئے۔ قرآن کہتا ہے ”تم مجھ کو یاد کرو اور ہم تم کو یاد کریں گے “۔ (سورہ2 رکوع 152 ) اور (پھر یہ کہ جب میرا بندہ میری عبادت کرتا ہے تو ہم اس کے قریب ہوتے ہیں“۔ (سورہ2 رکوع 186 )وہ نیا دین جس کو ”اسلام“ کہتے ہیں اس کا طریقہ غیر مصالحت پسندانہ توحید ہے۔ سب مسلمان برابر ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں اور اسلام کسی قسم کی رہبانیت اور مقرر کردہ ملائی کو نہیں مانتا( قبول کرتا)۔
⤵️1⃣
قسط نمبر ٢
╭┅•🌷 ͜✯͜͡ ͜͡ ͜͡ ﷽ ͜͡ ✯͜ 🌷•┅╮
🔴پیغمبرؑ کا حفاظتی نظام🔴
حضرت پیغمبرؑ کے سب سے بڑے ہندستانی سوانح نگار "مولانا شبلی" پیغمبر کو صرف دنیاوی آدمی نہیں سمجھتے ۔ اس لیے کہ اصولی طور پر وہ ان کو ایک روحانی اور اخلاقی مصلح مانتے ہیں۔ یہ صحیح ہے اور پیغمبر کی کوئی سوانح، مختصر سے مختصر بھی، ان کی مذہبی تبلیغ کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔ پھر بھی سیاسی اداروں کے نقطہ نظر سے حضرت پیغمبر کا سب سے بڑا کارنامہ وہ حفاظتی نظام ہے، جو انھوں نے پورے عرب کے لیے قائم کیا۔ سوائے ان علاقوں کے جو باز نطینی اور فارس کے تحت تھے۔ اسی بنیاد پر ان کے جانشینوں نے ڈھانچہ تیار کیا۔
حضرت محمدؑ ابن عبد الله عبد المطلب بن ہاشم قریشی ء ۵۷۰ کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا ان کی ولادت سے قبل انتقال ہو گیا تھا، اور وہ چھ سال کے تھے کہ ان کی والدہ آمنہ بھی انتقال کر گئیں۔ اس لیے ان کے چچا ابو طالب نے جو قبیلہ کے سردار اور چچا زاد بھائی "علی" کے باپ تھے ان کی پرورش کی، ابو طالب کی مالی حالت اچھی نہیں تھی اس لیے محمدؑ کو بچپن ہی میں بکریاں چرانا پڑا، لیکن جوانی میں انھوں نے کاروانوں کے انتظامات میں ایک ایمان دار اور قابل اعتماد کار گزار کی حیثیت سے نام حاصل کیا۔ جبکہ وہ پچیس سال کے تھے، تو انھوں نے ایک دولت مند بیوہ "خدیجہ" سے جو چالیس سال کی تھیں اور جن کے کاروانوں کے وہ انتظام کار تھے شادی کر لی۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ پیغمبر کی سوانح اور حدیثوں کے جمع کرنے والوں نے ان کے اس "تمہیدی دور زندگی" کے متعلق بہت ہی کم لکھا ہے۔ لیکن دو مفروضے باآسانی پیش کیے جا سکتے ہیں۔ جب سارے عرب کا حفاظتی نظام ان کے ہاتھوں میں آیا اس وقت یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں تمام قبیلوں اور فرقوں کے باہمی اختلافات اور مالی حالت کی اتنی مکمل واقفیت تھی کہ اس میں کوئی انھیں فریب نہیں دے سکتا تھا۔ دوسرے یہ کہ انھوں نے یہودی، عیسائی اور یونانی ( Helenie) خیالات، جو عرب میں جاری تھے ، کا بغور مطالعہ کیا تھا۔ یہ روایت صحیح ہی ہے کہ وہ کئی کئی دنوں کے لیے اپنے مختصر توشہ کے ساتھ غور و فکر کے لیے ”حرا“ کے غیر آرام دہ غار میں رہتے تھے۔
اپنی عمر کے چالیسویں سال میں محمدؑ کو ایک طویل روحانی تجربے سے گزرتا پڑا جس سے ان کو یہ یقین ہو گیا کہ وہ اللہ تعالی کی جانب سے نبی اور رسول بنائے گئے ہیں تاکہ قدیم انسانیت کے مذاہب یعنی حضرت آدمؑ و نوحؑ موسیؑ اور عیسیؑ اور ان تمام انبیاء جن کے درمیان ہم کوئی اختلاف نہیں پاتے“ (سورہ نمبر 2 رکوع 136) کے مذہب کو جو پھر سے جاری اور ساری کریں اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ اس عیسائیت اور یہودیت کو جو اس وقت وہاں مروج تھی۔ صحیح تسلیم کرتے تھے۔ وہ حضرت عیسٹی کا بحیثیت روح اللہ اور کلمۃ اللہ بہت احترام کرتے تھے لیکن توحيد في التثلیث کے نظریے کے وہ سخت مخالف تھے۔ جہاں تک یہودیوں کا تعلق ہے وہ (محمد) اس بات سے انکار کرتے تھے کہ کسی بھی قوم کے افراد خود کو پیدائشی طور پر چنیدہ بندے، تصور کر سکتے تھے۔ قرآن کہتا ہے کہ تم میں اچھے وہی ہیں جن کو اللہ کا قرب حاصل ہے۔ محمد کا اللہ کسی قبیلہ کا دیوتا نہیں بلکہ سارے جہاں کا مالک (رب العالمین) ہے۔ ( انھوں نے ) کفار عرب سے کہا کہ ”جن دیوتاؤں کو تم اللہ کی بیٹیاں سمجھ کر پوجتے ہو یا جن کو درمیانی درجہ دیتے ہو (ذریعہ نجات سمجھتے ہو ان کا کوئی وجود نہیں۔ اللہ کی عبادت براہ راست کرنی چاہیئے۔ قرآن کہتا ہے ”تم مجھ کو یاد کرو اور ہم تم کو یاد کریں گے “۔ (سورہ2 رکوع 152 ) اور (پھر یہ کہ جب میرا بندہ میری عبادت کرتا ہے تو ہم اس کے قریب ہوتے ہیں“۔ (سورہ2 رکوع 186 )وہ نیا دین جس کو ”اسلام“ کہتے ہیں اس کا طریقہ غیر مصالحت پسندانہ توحید ہے۔ سب مسلمان برابر ہیں اور آپس میں بھائی بھائی ہیں اور اسلام کسی قسم کی رہبانیت اور مقرر کردہ ملائی کو نہیں مانتا( قبول کرتا)۔
⤵️1⃣
No comments