Quied_E_Azam History
یہ بنیادی طور پر تین خاندانوں کا قصہ ہے‘ پہلا خاندان واڈیا فیملی تھی‘ خاندان کی بنیاد پارسی تاجر لوجی نصیر وان جی واڈیا نے بھارت کے شہر سورت میں رکھی‘ فرنچ ایسٹ انڈیا اور برٹش ایسٹ انڈیا میں جنگ ہو چکی تھی‘ برطانوی تاجر فرانسیسی تاجروں کو پسپا کر چکے تھے‘ پلاسی کی جنگ بھی ختم ہو چکی تھی اور میسور میں ٹیپو سلطان بھی ہار چکے تھے‘ ایسٹ انڈیا کمپنی کو اب مغل سلطنت پر قبضے کےلئے برطانیہ سے
مضبوط رابطے چاہیے تھے‘ یہ رابطے بحری جہازوں کے بغیر ممکن نہیں تھے‘ لوجی واڈیا لوہے کے کاروبار سے وابستہ تھے‘ وہ انگریزوں کی ضرورت کو بھانپ گئے چنانچہ انہوں نے 1736ءمیں ہندوستان میں پہلی شپنگ کمپنی کی بنیاد رکھ دی‘ وہ سورت سے ممبئی منتقل ہوئے‘ بحری جہاز بنانے کا کارخانہ لگایا‘ ممبئی پورٹ بنائی اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ طاقتور تجارتی دھاگے میں پرو گئے‘ انگریز بعد ازاں واڈیا گروپ سے بحری جنگی جہاز بھی بنوانے لگے‘ واڈیا گروپ نے 1810ءمیں ایچ ایم ایس مینڈن کے نام سے دنیا کا دوسرا بڑابحری جہاز بنایا‘ امریکا نے 1812ءمیں اس جہاز پر اپنا قومی ترانہ لکھا‘ یہ دنیا میں بحری جہاز پر لکھا جانے والا پہلا امریکی ترانہ تھا‘ واڈیا فیملی کے اردشیر کاﺅس جی 1849ءمیں امریکا گئے‘ یہ امریکی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے پارسی تھے‘ یہ لوگ 1840ءتک سو سے زائد بحری جنگی جہاز بنا چکے تھے‘ یہ پوری دنیا میں اپنا تجارتی نیٹ ورک بھی پھیلا چکے تھے اور یہ دنیا میں جہاز رانی میں پہلے نمبر پر بھی آ چکے تھے‘ واڈیا فیملی بعد ازاں کپڑا سازی‘ فلم ‘ تعلیم اور میڈیا کے شعبوں میں بھی آ گئی‘ لوجی واڈیا کے پوتے کے پوتے نوروجی واڈیا نے پونا میں پہلا پرائیویٹ کالج بنایا‘ واڈیا فیملی نے 1933ءمیں ممبئی میں سٹوڈیوز اور فلم سازی کی کمپنیاں بنائیں‘ جے بی ایچ واڈیا اور ہومی واڈیا فلمیں بنانے لگے اور یہ اب فیشن
میگزین بھی چلاتے ہیں‘ فیشن چینلز بھی اور ”گوائیر“ کے نام سے ائیر لائین بھی‘ یہ بھارت میں اس وقت بھی بڑا کاروباری نام ہیں۔پٹیٹ بھارت کا دوسرا تجارتی خاندان تھا‘ یہ لوگ کپڑے کی صنعت سے وابستہ تھے‘سر ڈنشا مانک جی پٹیٹ نے ہندوستان میں پہلی کاٹن مل لگائی تھی‘ یہ ملکہ سے نائیٹ کا خطاب حاصل کرنے والے پہلے ہندوستانی بھی تھے‘ سر ڈنشا پٹیٹ کی شادی ہندوستان کے پہلے ارب پتی رتن ٹاٹا کی بیٹی سائیلا
ٹاٹا سے ہوئی تھی‘ سائیلا ٹاٹا کی والدہ فرنچ تھیں‘ ان کا نام سوزانا تھا‘
وہ ہندوستان میں گاڑی چلانے والی پہلی خاتون تھی‘ جہانگیر ٹاٹا سائیلا کے بھائی تھے‘ یہ ٹاٹا گروپ کے چیئرمین تھے‘ سرڈنشا مانک جی پٹیٹ اور سائیلا ٹاٹا کے ہاں 1900ءمیں ایک نہایت خوبصورت بچی پیدا ہوئی‘ بچی کا نام رتی بائی پٹیٹ رکھا گیا‘ سر ڈنشا پٹیٹ نے بچی کو اپنے نوجوان دوست محمد علی جناح سے گھٹی دلائی‘ محمد علی جناح اس وقت ممبئی کے نامور وکیل تھے‘ وہ ذہین ترین شخص کہلاتے تھے‘ سر ڈنشا پٹیٹ چاہتے تھے ان کی بیٹی محمد علی جناح کی طرح ذہن ثابت ہو‘
سرڈنشا پٹیٹ کی یہ خواہش بعد ازاں پوری ہوئی لیکن کس طرح یہ ہم آپ کو تیسرے خاندان کے تعارف کے بعد بتائیں گے۔بھارت کا تیسرا خاندان جناح کہلاتا ہے‘ خاندان کے بانی پریم جی بھائی تھے‘ یہ گجرات کاٹھیاواڑ کے رہنے والے تھے‘ وہ مذہباً ہندو تھے‘ انہوں نے اسلام قبول کیا‘ کھوجہ شیعہ بنے اور تجارت شروع کر دی‘ کراچی اس زمانے میں چھوٹا سا ساحلی قصبہ تھا‘ یہ مچھیروں تک محدود تھا‘ یہ شہر 1870ءمیں اچانک اہمیت اختیار کر گیا‘ کیوں؟ وجہ بہت دلچسپ تھی‘
انگریز نے 1859ءمیں مصر میں نہر سویز کھودنا شروع کی‘ یہ نہر دس سال بعد 1869ءمیں مکمل ہو ئی‘ نہر سویز نے میڈٹیرین سی (بحیرہ روم) کو ریڈ سی (بحیرہ احمر) کے ساتھ ملا دیا‘ بحری جہازوں کا فاصلہ سات ہزار کلو میٹر کم ہو گیا‘ نہر سویز سے قبل ممبئی ہندوستان کی واحد بندر گاہ تھی‘ نہر کی وجہ سے یورپ اور ہندوستان کے درمیان تجارت میں تین گناہ اضافہ ہوگیا‘ ممبئی پورٹ یہ بوجھ برداشت نہیں کر پا رہی تھی‘ انگریز کو نئی بندرگاہ کی ضرورت پڑ گئی‘
کراچی قدرتی بندرگاہ تھا چنانچہ انگریز نے یہاں بندر گاہ بنانا شروع کر دی‘ یہ بندر گاہ ہندوستان کے دوسرے درجے کے ہزاروں تاجروں کو کراچی کھینچ لائی‘ ان تاجروں میں جناح پونجا بھی شامل تھے‘ یہ 1875ءمیں کراچی آئے اور ان کے ہاں 1876ءمیں محمد علی پیدا ہوئے‘ یہ والد کی مناسبت سے محمد علی جناح کہلانے لگے‘ جناح پونجا کامیاب تاجر تھے‘ یہ اپنا مال بحری جہازوں کے ذریعے یورپ بھجواتے تھے‘ آپ اب صورت حال ملاحظہ کیجئے‘ جناح پونجا تاجر ہیں‘ یہ چمڑا اور سوتی کپڑا ایکسپورٹ کرتے ہیں‘
سوتی کپڑا پٹیٹ فیملی کی ملوں میں بنتا ہے‘ چمڑا پٹیٹ فیملی کے سسرالی ٹاٹا فیملی کی ٹینریز میں رنگا جاتا ہے اور یہ مال واڈیا فیملی کے جہازوں پر یورپ جاتا ہے یوں قدرت نے تینوں (چاروں) خاندانوں کے درمیان ایک دلچسپ تعلق پیدا کر دیا۔ہم اب ان تمام خاندانوں کی کنجی محمد علی جناح کی طرف
11 sep
Such jaan k Geo
ڈاکٹرصفدر محمود صاحب نے اپنے مضمون ( روزنامہ ’’جنگ
محمد علی جناح ایک اسماعیلی مذہب سے وابستہ خاندان سے تعلق رکھتے تھے ۔جناح کے قریبی دوست ایم اے ایچ اصفہانی نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک مقدمہ میں بطور گواہ جوشہادت دی اس سلسلہ میں اسی کو کافی سمجھا گیا ہے ہم بھی وہ شہادت درج کئے دیتے ہیں اصفہانی صاحب نے کہا:۔’’میں سترہ اٹھارہ برس کی عمر میں کیمبرج میں انڈر گریجوایٹ کے طور پر تعلیم حاصل کررہا تھا جب مجھےجناح سے رابطہ کا شرف حاصل ہوا۔ ایک شام میری ان سے ان کے مسلک پر بات چیت ہوئی انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا تعلق آغا خانی خوجوں سے تھا۔1890ء میں وہ انگلینڈ سے بارایٹ لاء کر آئے اس وقت آغا خانی مسلک سے تعلق جاری رکھنے پر انہوں نے غوروخوض کیا او رآغا خانی یا اسماعیلی مسلک چھوڑنے اور اثنا عشری عقیدہ اپنانے کا فیصلہ کیا‘‘(قائداعظم کے خاندانی تنازعے از خالد احمد ص24)۔
تاہم مذہب کے معاملہ میں وہ کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے تھے بلکہ انگلینڈ میں ایک عرصہ گزار نے کے باعث وہ حرام وحلال میں بھی تمیز نہیں کرتے تھے اور ایک مدت تک خنزیر کا گوشت کھالینے سے بھی احتراز نہیں کرتے تھے۔ قائداعظم کے معاون وکیل اور مسلم لیگ کے ابتدائی دور کے سیکرٹری ایم سی چھاگلہ کے بیان کے مطابق ’’ ایک روز جب بمبئی میں مسٹر جناح اور چھاگلہ مسٹر جناح کی الیکشن مہم پر تھے تومسزرتی یعنی بیگم جناح، مسٹر جناح کی آرام دہ لیموزین کار چلاتے ہوئے ٹاؤن ہال آئی اور ایک ٹفن باسکٹ لے کر کار سے نکلی اور ہماری طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا مسٹرجے۔ (رتی، جناح کو اسی طرح مخاطب کرتی تھیں) اندازہ لگاؤ کہ میں تمہارے لنچ کے لئے کیا لائی ہوں‘‘؟ مسٹر جناح نے جواب دیا ’’میں کیا جان سکتا ہوں‘‘ اس نے جواب دیا ۔ میں تمہارے لئے خنزیر کے گوشت کے بڑے پیارے لذیز سینڈوچ لائی ہوں‘‘ جناح ہڑبڑا کر رہ گئے او ربول اٹھے ’’او خدا، رتی یہ تم نے کیا کیا۔ کیا تم چاہتی ہو کہ میں الیکشن ہار جاؤں کیا تم جانتی نہیں کہ میں جدا گانہ انتخاب کی مسلم سیٹ پر بطور امیدوارالیکشن لڑرہا ہوں اور اگر میرے ووٹروں کو معلوم ہوجائے کہ میں خنزیر کے گوشت سے بنے سینڈوچ کھاتا ہوں تو وہ مجھے کس طرح ووٹ دیں گے‘‘ اس پر مسز جناح کا چہرہ لٹک گیا او ر وہ تیزی سے ٹفن اٹھائے بھاگتی ہوئی نیچے گئی اور گاڑی اڑاتی چلی گئی۔
Roses in December by M.C Chhagla, P118-119
برسبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ حکومت پاکستان نے جناح کی صحیح ترین سوانح حیات لکھنے کے لئے مغربی مصنف سٹینلے والپرٹ کی خدمات معاوضہ پر حاصل کی تھیں۔ مسٹر والپرٹ کو جناح کا آفیشل بائیو گرافر کہا جاتا ہے والپرٹ نے’’جناح آف پاکستان ‘‘کے نام سے یہ کتاب لکھ دی۔ چھاگلہ کی کتاب کا مندرجہ بالا اقتباس والپرٹ نے بھی اپنی تصنیف کے صفحات78،79درج کیا ہے یہ کتاب1984ء میں شائع ہوگئی لیکن قائداعظم پر’’تقدس ‘‘ اور تطہیر‘‘ کا جامہ فٹ کرنے کے عادی اربابِ بست وکشاد کو سچائی کی بعض جھلکیاں پسند نہ آئیں اور کتاب کی تقسیم پر پابندی لگادی گئی(بحوالہ ’’توصاحب منزل ہے کہ بھٹکا ہواراہی‘‘از نور محمد قریشی ایڈووکیٹ ص50)۔
خیال رہے کہ جس الیکشن کایہاں ذکر کیا گیا ہے وہ1923ء کا بمبئی کی مسلم سیٹ کا الیکشن تھا۔ اور اس وقت قائداعظم کو سیاست میں ناموری حاصل کئے کافی عرصہ گزرچکا تھا نیز وہ ایک مسلم لیڈر کی حیثیت سے میدان عمل میں تھے اور امتیازی تشخص حاصل کرچکے تھے اُس وقت بھی ان کی یہ حالت تھی۔ یہ نہ سمجھاجائے کہ اپنی بیگم کا ’’لذیز کھانا‘‘ انہوں نے واپس کیا تو وہ خنزیر کے گوشت سے پرہیز اپنا چکے تھے، نہیں بالکل نہیں، کیونکہ چھاگلہ صاحب مندرجہ بالا واقعہ کے بعد لکھتے ہیں۔
’’پھر یعنی بیگم جناح کو واپس کرنے کے بعد ہم بمبئی کے مشہور ریسٹورنٹ ’’کارنیلی گا‘‘ گئے جناح نے دوکپ کافی، ایک پلیٹ پیسٹری اور ایک پلیٹ ’’خنزیر کا بھنا ہوا گوشت‘‘ (پورک ساسجز) کا آرڈر دیا جب ہم کافی پی رہے تھے اور’’خنزیر کے قیمہ‘‘ سے لطف اندوز ہورہے تھے تو ایک معمر باریش مسلمان ہمارے پاس آگیا اس کے ساتھ اس کا دس سالہ بیٹا بھی تھا۔ ظاہر تھا کہ انہیں ٹاؤن ہال کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ لڑکا پورک ساججزکی طرف ہاتھ بڑھارہا تھا، کچھ ہچکچاہٹ کے بعد اس نے کچھ اٹھاکر منہ میں ڈال لیا اور جب وہ جارہا تھا تو اس کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ خوب لطف اندوز ہورہا ہے۔ میں یہ سب کچھ پریشانی سے دیکھتا رہا کچھ دیر کے بعد وہ چلے گئے اور جناح نے میری طرف دیکھتے ہوئے غصہ سے کہا ’’چھاگلہ تمہیں شرم آنی چاہئے، تم نے لڑکے کو کیوں پورک ساججزتک پہنچنے دیا‘‘ میں نے کہا’’اس اچانک مرحلہ پر میں نے اپنے دل ودماغ کو پوری طرح مستعد کرکے سوچا کہ میں جناح کو الیکشن میں ناکام کرادوں یا لڑکے کو حرام کھانے دوں اور میرا فیصلہ تمہارے حق میں تھا‘‘(ایضاً)
آپ جان گئے ہوں گے کہ خنزیر کے گوشت سے پوری طرح پرہیز شروع نہیں ہوگیا تھا کیون کہ ریسٹورنٹ میں آکر بھی وہی منگایا جاتا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ یہاں بھی جناح کسی حدتک اسی طرح کی صورت حال سے دو چار ہوگئے تھے جس سے بچنے کے لئے انہیں اپنی محبوب بیوی کے دل کو دکھی کرنا پڑا تھا۔ وہاں خطرہ تھا کہ بہت سے لوگ تھے کوئی بھی بے تکلفی سے آکر لنچ میں شریک ہوجاتا او رپھر بدنامی شروع ہوجاتی یہاں ریسٹورنٹ میں بھی شاید یہ معمر باریش انسان اپنے لڑکے کے ساتھ اسی طرح کی کوئی کمزوری سونگھنے آیا تھا۔ لڑکے کے ہاتھ بڑھانے پر چھاگلہ صاحب نے سوچا اگر وہ اسے روکتا ہے تو باریش آدمی شک میں پڑکر شوراٹھاسکتا ہے اس لئے انہوں نے جناح کو بچالیا او رلڑکے کو حرام کھانے دیا۔ اس واقعہ سے نور محمد قریشی ایڈووکیٹ یہ نتائج اخذکرتے ہیں۔
’’۔1۔ اس واقعہ سے واضح ہوتا ہے کہ مسٹر جناح ہیم سینڈوچزبہت رغبت سے نوش فرماتے تھے البتہ اس بات کا اہتمام ضرور کرتے کہ ان کے حلقہ انتخاب کے مسلمان اس سے بے خبر رہیں۔2۔ اگر مسٹر چھاگلہ کو معلوم تھا کہ مسٹر جناح خوردونوش میں حرام وحلال کی تمیز روانہیں رکھتے تو مسلم لیگ کے طبقہ اولیٰ کی کیاحالت ھوگی
عبدالله عباسی
No comments