🏮 *علامہ ابن قیمؒ حنبلی کی رائے عالی*ابو عمرو بن صلاح سے منقول ہے :اگر کوئی شخص کسی حدیث کو اپنے مذہب کے خلاف پائے تو اگر اس میں مطلق اجتہاد یا اجتہاد فی المذہب یا اس نوع میں اجتہاد یا خاص اس مسئلہ میں اجتہاد کی مکمل اہلیت ہو تو اس کے لئے حدیث پر عمل کرنا بہتر ہے ، لیکن اگر اہلیت مکمل نہ ہو اور اپنے دل میں حدیث کی مخالفت سے قلق اور گرانی محسوس کرے جب کہ تلاش و تحقیق کے بعد بھی اس کی مخالفت کے لئے کوئی جواب شافی نہ پا سکا ہو تو پھر غور کرے کہ اس حدیث پر کسی مستقل )مجتہد مطلق( امام کا عمل ہے یا نہیں اگر کسی مستقل امام کا اس پر عمل ہے تو اس حدیث میں اسی امام کے مذہب پر عمل کر لے اور یہ اس لئے اپنے امام کے مذہب کو چھوڑ دینے کے لئے صرف اس مسئلہ میں ایک عذر ہوگا ۔ واللہ اعلم ۔📍 امام شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں کہ امام نووی نے ابن صلاح کے اس قول کی تحسین کی ہے اور بلا تنقید برقرار رکھا ہے ۔ )عقد الجید ص۴۴(💟 *امام ناقد حافظ شمس الدین ذہبیؒ کا فرمان ذیشان:*حدیث پر عمل کرنا امام ابو حنیفہ یا امام شافعی کے قول پر عمل کرنے سے بہتر ہے۔اس پر رد کرتے ہوئے امام ذہبی فرماتے ہیں:۔)میں کہتا ہوں یہ عمدہ بات ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ حدیث پر عمل کا قائل ان دونوں اماموں امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے ہمسر کوئی امام بھی ہو جیسے امام مالک یا امام سفیان یا امام اوزاعی اور اس شرط کے ساتھ کہ وہ حدیث ثابت اور ہر علت سے پاک بھی ہو نیز یہ بھی شرط ہے کہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے پاس دلیل میں کوئی دوسری صحیح حدیث اس حدیث کے خلاف نہ ہو لیکن اگر کوئی کسی صحیح حدیث پر اس طرح عمل کرتا ہے کہ اس حدیث کے خلاف تمام ائمہ اجتہاد جمع ہوں تو ایسی صورت میں ہر گز اس حدیث پر عمل جائز نہیں۔)سیر اعلام النبلاء للذہبی ج ۶۵۰۴(
🏮 *علامہ ابن قیمؒ حنبلی کی رائے عالی*ابو عمرو بن صلاح سے منقول ہے :اگر کوئی شخص کسی حدیث کو اپنے مذہب کے خلاف پائے تو اگر اس میں مطلق اجتہاد یا اجتہاد فی المذہب یا اس نوع میں اجتہاد یا خاص اس مسئلہ میں اجتہاد کی مکمل اہلیت ہو تو اس کے لئے حدیث پر عمل کرنا بہتر ہے ، لیکن اگر اہلیت مکمل نہ ہو اور اپنے دل میں حدیث کی مخالفت سے قلق اور گرانی محسوس کرے جب کہ تلاش و تحقیق کے بعد بھی اس کی مخالفت کے لئے کوئی جواب شافی نہ پا سکا ہو تو پھر غور کرے کہ اس حدیث پر کسی مستقل )مجتہد مطلق( امام کا عمل ہے یا نہیں اگر کسی مستقل امام کا اس پر عمل ہے تو اس حدیث میں اسی امام کے مذہب پر عمل کر لے اور یہ اس لئے اپنے امام کے مذہب کو چھوڑ دینے کے لئے صرف اس مسئلہ میں ایک عذر ہوگا ۔ واللہ اعلم ۔📍 امام شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں کہ امام نووی نے ابن صلاح کے اس قول کی تحسین کی ہے اور بلا تنقید برقرار رکھا ہے ۔ )عقد الجید ص۴۴(💟 *امام ناقد حافظ شمس الدین ذہبیؒ کا فرمان ذیشان:*حدیث پر عمل کرنا امام ابو حنیفہ یا امام شافعی کے قول پر عمل کرنے سے بہتر ہے۔اس پر رد کرتے ہوئے امام ذہبی فرماتے ہیں:۔)میں کہتا ہوں یہ عمدہ بات ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ حدیث پر عمل کا قائل ان دونوں اماموں امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے ہمسر کوئی امام بھی ہو جیسے امام مالک یا امام سفیان یا امام اوزاعی اور اس شرط کے ساتھ کہ وہ حدیث ثابت اور ہر علت سے پاک بھی ہو نیز یہ بھی شرط ہے کہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے پاس دلیل میں کوئی دوسری صحیح حدیث اس حدیث کے خلاف نہ ہو لیکن اگر کوئی کسی صحیح حدیث پر اس طرح عمل کرتا ہے کہ اس حدیث کے خلاف تمام ائمہ اجتہاد جمع ہوں تو ایسی صورت میں ہر گز اس حدیث پر عمل جائز نہیں۔)سیر اعلام النبلاء للذہبی ج ۶۵۰۴(
No comments